Reply to Thread New Thread |
04-30-2013, 01:31 AM | #1 |
|
اسلام جب اپنے محسنین تلامذہ نبوت (ص )، خلفائے راشدین (ر) کی وجہ سے بام عروج پر پہنچا اور معلوم کرہ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوند خاک ہوگئیں تو یہود و مجوس منافقانہ اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعأ، یمن کا عبد اللہ بن سباء یہودی عالم تھا (۱) جو صحابہ دشمنی ، تعلیم نبوت سے بیزاری ، خلفاء وفاتحین اسلام کی کردار کشی اور ملی منافرت پھیلانے میں ''ابن ابئ رئیس المنافقین کا پورا وارث و جانشین تھا''۔ اسی نے ''حب اہل بیت'' کے پر فریب نعرہ سے حضرت عثمان (ر) کو شہید کرایا۔ دور مرتضوی (ر) میں شدید خونریزیاں کرائیں۔ اسی کے پیروکار''ابن ملجم'' نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شہید کیا۔ اتحاد ملت کے دشمن اسی کے حواریوں نے سبط پیغمبر حضرت حسن المجتبیٰ (ر) کو حضرت امیر معاویہ (ر) کے ساتھ مصالحت و بیعت کرلینے کی وجہ سے مذلّ المومنین، مسود المسلمین، مومنوں کو روسیاہ کرنے والے اور ان کی ناک کٹوانے والے القابات سے نوازا (جلا العیون )۔ اسی بدبخت گروہ نے ریحانہ بتول حضرت حسین (ر) مظلوم کو بلا کر غداری سے شہید کیا اور قافلہ اہل بیت (ر) سے بددعائیں لے کر رونا پیٹنا اپنا مذہب بنالیا۔ عبداللہ بن سباء اور اس کی پیروکار ذریت کے یہ اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب سے معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔ اس نے اپنی پرتقیہ ، خفیہ تحریک سے صحابہ (ر) و اہل بیت (ر) کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ حضرت علی (ر) کو رب باور کرایا۔ ''یا علی مشکل کشا ''اور ''یا علی مدد'' کے نعرے اسی کا نتیجہ ہیں۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کرکے ختم نبوت کا صفایا کیا۔ قرآن میں تحریف اور کمی و بیشی کا نظریہ ایجاد کرکے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت ، تمام صحابہ کرام (ر) کو معاذ اللہ منافق ، غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبر( ص) کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المومنین (ر) ، بنات طاہرات (ر) اور آپ (ص) کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کرکے ''مقام اہل بیت'' کے نظریہ کو بھی تہس نہس کردیا۔ اسی ضمن میں عالم اسلام کے مشہور مفکر حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ''اسلام میں شیعیت کا آغاز'' کے عنوان میں عبداللہ بن سباء کے تعارف میں فرماتے ہیں: ''اس خونی فضا میں حضرت علی المرتضیٰ (ر) چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ (ر) بلاشبہ خلیفہ برحق تھے۔ امت مسلمہ میں اس وقت کوئی دوسری شخصیت نہیں تھی جو اس عظیم منصب کیلئے قابل ترجیح ہوتی لیکن حضرت عثمان (ر) کی مظلومانہ شہادت کے نتیجے میں امت مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی اور نوبت باہم جنگ و قتال کی بھی آئی۔ جمل اور صفین کی دو جنگیں ہوئیں۔ عبداللہ بن سباء کا پورا گروہ جس کی اچھی خاصی تعداد ہوگئی تھی ، حضرت علی المرتضیٰ (ر) کے ساتھ تھا۔ اس زمانہ اور اس فضاء میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اور کم فہم عوام کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت اور عقیدت کے عنوان سے غلو اور گمراہی میں مبتلا کرے۔ یہاں تک کہ اس نے کچھ سادہ لوحوں کو وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا اور ان کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ حضرت علی (ر) اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں اور ان کے قالب میں خداوندی روح ہے اور گویا وہی خدا ہیں۔ کچھ احمقوں کے کان میں یہ پھونکا کہ اللہ نے نبوت اور رسالت کیلئے در اصل حضرت علی (ر) کو منتخب کیا تھا۔ وہی اس کے اہل اور مستحق تھے اور حامل وحی فرشتے جبریل امین کو ان ہی کے پاس بھیجا تھا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمد بن عبداللہ (ص) کے پاس پہنچ گئے''( ۲ )۔ استغفر اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ مورخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب حضرت علی المرتضیٰ (ر) کے علم میں کسی طرح یہ بات آئی کہ ان کے لشکر کے کچھ لوگ ان کے بارے میں اس طرح کی باتیں چلارہے ہیں توآپ (ر) نے ان شیاطین کو قتل کرادینے اور لوگوں کی عبرت کیلئے آگ میں ڈلوادینے کا ارادہ فرمایا ، لیکن اپنے چچا زاد بھائی اور خاص رفیق و مشیر حضرت عبد اللہ بن عباس (ر) اور ان جیسے اور لوگوں کے مشورہ پر اس وقت کے خاص حالات میں اس کاروائی کو دوسرے مناسب وقت کیلئے ملتوی کردیا۔ (۳ )۔ بہر حال ، جمل و صفین کی جنگوں میں عبداللہ بن سباء اور اس کے چیلوں کو اس وقت کی خاص فضاء سے فائدہ اٹھا کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں ان کے بارے میں غلو کی گمراہی پھیلانے کا پورا پوراموقع ملا اور اس کے بعد جب آپ (ر) نے عراق کے علاقہ میں کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنالیا تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا خاص مرکز بن گیا اور چونکہ مختلف اسباب اور وجوہ کی بناء پر جن مورخین نے بیان کیا ہے ، اس علاقہ کے لوگوں میں ایسے غالیانہ اور گمراہانہ افکار و نظریات کے قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت تھی ، اس لئے یہاں اس گروہ کو اپنے مشن میں زیادہ کامیابی ہوئی (گویا کہ یہ علاقہ شیعیت کا گڑھ بن گیا )۔ (ایرانی انقلاب ، ص ۱۰۸، ۱۰۹ )۔ گو ابن سباء ختم ہوگیا لیکن ''حب اہل بیت'' کی آڑ میں اس کا سبائی گروہ اور کفریہ نظریات چلتے رہے۔ خارجی اور شیعہ کے نام سے یہ دو گروہ بن گئے اور اسلام اور مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ان کا اصلی مذہب تو سیاست اور امت مسلمہ کو تباہ کرنا تھا ، لیکن ایک روپ مذہب کا بھی دھارا اور عقائد ، اعمال ، اخلاقیات میں افرا ط و غلو اختیار کیا۔ اصول اور فروعِ دین میں تشکیک پیدا کرنے کیلئے فضول مباحث اور ''کلامی مجاولات'' کا دروازہ کھول دیا۔ اسی اختلاف و شقاق سے وہ اپنے مذہبی وجود کا بھرم باقی رکھے ہوئے ہیں۔ علامہ احمد امین مصری نے''فجر الاسلام'' میں لکھا ہے کہ پہلی اور دوسری صدی میں جو شخص یا گروہ اسلام پر حملہ آور ہوتا وہ اہل تشیع کے کیمپ میں آجاتا اور تقیہ و حب اہل بیت کی آڑ میں اسلام کی جڑوں کو کاٹتا۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ (رح) نے منہاج السنتہ میں لکھا ہے کہ: "شیعہ روز اول سے مسلمانوں کے دشمن چلے آرہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دے کر اہل اسلام سے جنگ لڑی ہے۔ ان کی ساری تاریخ سیاہ اور ظلمت ظلم سے تمور ہے"۔ نیز فرماتے ہیں کہ: "شیعہ نقلی دلائل پیش کرنے میں اکذب الناس ہیں اور عقلی دلائل کے ذکر و بیان میں اجہل الناس"۔ یہی وجہ ہے کہ علماء انہیں اجہل الطوائف کہتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اسلام کو پہنچنے والے نقصان کا علم صرف رب العالمین کو ہے۔ اسماعلییہ ، باطنییہ اور نصیریہ ایسے گمراہ فرقے اسلام میں شیعہ ہی کے دروازہ سے داخل ہوئے۔ کفار و مرتدین بھی شیعہ کی راہ پر گامزن ہو کرا سلامی دیار و بلاد پر چھاگئے۔ مسلم خواتین کی آبروریزی کی اور ناحق خون بہایا۔ شیعہ خبث باطن اور ہوائے نفس میں یہود سے ملتے جلتے اور غلو جہل میں نصاریٰ کے ہمنوا ہیں۔ (المنتقیٰ من المنہاج اردو ، ص۲۸، مطبوعہ گوجرانوالہ )۔ اس کی تازہ مثال پاکستان میں شریعت بل 1986ء کی مخالفت ہے۔ آل شیعہ پارٹیز فیڈریشن نے 6 اپریل اور 19 اپریل کے اخبارات جنگ وغیرہ میں یہ پریس ریلیز شائع کرائی کہ: "اگر شریعت بل نافذ کیا گیا تو شیعہ اس کی بھر پور مزاحمت کریں گے، قربانی دیں گے اور اسلام کے شیدائی سوشلزم اپنانے پر مجبور ہوں گے"۔ یعنی قرآن و سنت ، اجماع امت اور قانون شرع پر مبنی مسلمانوں کا اپنا اسلامی نظام ہر گز گوارا نہیں ہے۔ اس کے آنے پر مر مٹنا منظور ہے مگر تائید نہیں کریں گے۔ سوشلزم کا خدا و مذہب کے انکار پر مبنی نظام قبول ہے۔ انگریزوں کے قانون میں ایک صدی عیش و عشرت سے بسر کی ، نہ اس کے خلاف آواز اٹھائی، نہ فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ جب پینتیس ۳۵ سال بعد پاکستان میں صدر محمد ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کی بات کی تو کھلے عام مخالف ہوگئے۔ اسلام کا گھیراؤ کیا اور فقہ جعفریہ کا مطالبہ لے آئے۔ عشروزکوٰۃ کا انکار کیا ، حدود شرعیہ سے خود کو مستثنیٰ کرالیا۔ اب نفاذ شریعت سے خائف ہیں اور مسلم کش روسی نظام سوشلزم اور کیمونزم سے معانقہ کررہے ہیں۔ کوئی کیسے باور کرے کہ یہ مسلمان ہیں؟ تو کیسے مسلمان ہیں؟ ۱- شیعہ کتاب رجال کشی ص ۷۱ مطبوعہ بمبئی ابن سباء کے حالات میں لکھا ہے: "اہل علم کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا۔ پھر اسلام قبول کیا اور حضرت علی (ر) سے محبت کا اظہار کیا۔ وہ یہودیت کے زمانے میں غلو کرکے حضرت یوشع بن نون کو موسیٰ (ع) کا وصی کہتا تھا تو مسلمان ہوکر اس نے رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد حضرت علی (ر) کے وصی ہونے کا عقیدہ نکالا۔ یہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی (ر) کی امامت کا فرض ہونا مشہور کیا اور سب سے پہلے اس نے آپ (ر) کے دشمنوں سے تبرا (سب وشتم) کیا اور اسی نے ان کی مخالفت کی اور ان (خلفاء ثلاثہ) کو کافر قرار دیا۔ اسی لئے مخالفین شیعہ کہتے ہیں کہ مذہب شیعہ کی اصل یہودیت ہے۔ ۲- یہ بات بلفظہ اورمن و عن تو ہمیں معلوم نہیں کہ شیعہ کی کس کتاب میں ہے تاہم قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین میں بعض شیعوں کا یہ عقیدہ نقل کیا ہے۔ غلط الامین فجاوزھا عن حیدر کہ جبریل امین نے غلطی کی کہ وحی و شریعت حیدر (ر) کے بجائے محمد (ص) تک پہنچادی۔ اغلب یہ ہے کہ بطور تقیہ اس کفریہ قول کو چھپادیا گیا ہے۔ برملا کہتے اور لکھتے نہیں کیونکہ وہ صحابہ رسول (ص) کو منافق اور شیعان علی (ر) کو مومن کہتے ہیں۔ معجزہ رسول (ص) قرآن کو محرف بلا امام ناقابل عمل اور بے حجت کہتے ہیں۔ صحیفہ نہج البلاغہ کو مقدس اور واجب العمل جانتے ہیں۔ خاص رسول اللہ (ص) کی طرف منسوب تمام چیزوں سے نفرت و تبرا کرتے ہیں۔ حضرت علی (ر) کی نسبت سے تمام چیزوں سے تولا اور محبت کرتے ہیں۔ رسول پاک (ص) کی تعلیم و ہدایت سے محض پانچ صحابہ کو بھی مومن و جنتی نہیں مانتے۔ علی (ر) کی نسبت سے لاتعداد لوگوں کو مومن و جنتی کہتے ہیں۔ یہی نبوت و ہادیت کو حضور( ص) سے کاٹ کر حضرت علی (ر) کو نبی وہادی مانتا ہے۔ ۳- صحیح بات یہ ہے کہ حضرت علی (ر) نے ان مشرک سبائیوں کو آگ میں جلا دیا تھا۔ جیسے بخاری (رح) اور ابن تیمیہ (رح) کی منہاج السنۃ میں صراحت ہے۔ شیعہ کی رجال کشی میں امام جعفر صادق (رح) نے ۷۰ آدمیوں کے جلانے کا ذکر فرمایا ہے اور وہ کہتے تھے کہ: "اے علی (ر) تیرے رب ہونے کا ہمیں یقین ہوگیا کہ آگ کا عذاب خدا کے سوا کوئی نہیں دیتا۔ خود ابن سباء مردود کو ابن عباس (ر) کے مشورہ سے جلایا نہیں ورنہ سب سبائی لشکر آپ (ر) سے بغاوت کردیتا۔ اسے بددعا دے کر جنگل میں ہانک دیا وہ بنی اسرائیل کے سامری کی طرح "لامساس" مجھے ہاتھ نہ لگاؤ کہہ کر پاگل ہوگیا اور درندوں کا لقمہ بن گیا"۔ ماخوذ: سیف اسلام (شیعہ کے ایک ہزار سوالات کے جوابات )۔ از: مولانا مہر محمد میانوالوی
|
|
Reply to Thread New Thread |
Currently Active Users Viewing This Thread: 1 (0 members and 1 guests) | |
|